معاصر تنقیدی تھیئری : ایک مکالمہ (نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوجیز)

ilyasbabar 12 views 76 slides Sep 22, 2025
Slide 1
Slide 1 of 76
Slide 1
1
Slide 2
2
Slide 3
3
Slide 4
4
Slide 5
5
Slide 6
6
Slide 7
7
Slide 8
8
Slide 9
9
Slide 10
10
Slide 11
11
Slide 12
12
Slide 13
13
Slide 14
14
Slide 15
15
Slide 16
16
Slide 17
17
Slide 18
18
Slide 19
19
Slide 20
20
Slide 21
21
Slide 22
22
Slide 23
23
Slide 24
24
Slide 25
25
Slide 26
26
Slide 27
27
Slide 28
28
Slide 29
29
Slide 30
30
Slide 31
31
Slide 32
32
Slide 33
33
Slide 34
34
Slide 35
35
Slide 36
36
Slide 37
37
Slide 38
38
Slide 39
39
Slide 40
40
Slide 41
41
Slide 42
42
Slide 43
43
Slide 44
44
Slide 45
45
Slide 46
46
Slide 47
47
Slide 48
48
Slide 49
49
Slide 50
50
Slide 51
51
Slide 52
52
Slide 53
53
Slide 54
54
Slide 55
55
Slide 56
56
Slide 57
57
Slide 58
58
Slide 59
59
Slide 60
60
Slide 61
61
Slide 62
62
Slide 63
63
Slide 64
64
Slide 65
65
Slide 66
66
Slide 67
67
Slide 68
68
Slide 69
69
Slide 70
70
Slide 71
71
Slide 72
72
Slide 73
73
Slide 74
74
Slide 75
75
Slide 76
76

About This Presentation

معاصر تنقیدی تھیئری


Slide Content

الیاس بابر اعوان معاصر تنقیدی تھیئری : ایک مکالمہ [email protected]

روایتی تنقید اور تھیئری

موازنہ روایتی تنقید ادبی تھیئری مصنف اور اس کی زندگی متن، قاری، زبان، سماج ایک حتمی اور ابدی معنی کثیر المعانی، غیر مستحکم اخلاقی و جمالیاتی قدریں، حقیقت کا عکس طاقت، جنس، طبقہ، شناخت، ساخت کا مطالعہ تاثراتی، اخلاقی، سوانحی سائنسی، لسانیاتی، فلسفیانہ حالی، شبلی، ارسطو دریدا، فوکو، ایڈورڈ سعید، رولان بارتھ تقابلی فرق (چارٹ) پہلو مرکز معنی ادب کا مقصد طریقہ مثالیں

ادبی تنقید اور ادبی تھیئری گوپی چند نارنگ تھیئری کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”نظریہ (تھیئری) ادب فہمی ہے۔اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ادب کیا ہے،اچھا ادب  برا  کیا ہے، ادب کی نوعیت و ماہیت کیا ہے،ادب اور زندگی میں کیا رشتہ ہے،زبان ادب میں کیوں کر جادو جگاتی ہے، معنی آفرینی،تہہ داری جد ت و ندرت کیا ہیں،نشاط و کیف،اثر پذیری اور جمالیات کیاہیں،اقدار کیا ہیں، اور انسان،سماج اور تہذیب میں کیا رشتہ ہے اور ادب میں ان پُر اثرار رشتوں کی نبض کس طرح ڈوبتی ابھرتی اور جمالیاتی فن پارہ بنتی ہے تو ان امور کی افہام و تفہیم یا ادبی تربیت کی کوئی بھی کوشش دراصل نظریہ فہمی یا نظریہ سازی(تھیئری) کی کوشش ہوگی اور تخلیقی عمل کی ذمہ داریوں کی آگہی اور ادب شناسی کے لیے اس کی اہمیت کم و بیش ویسی ہوگی جیسے زندہ رہنے کے سانس لینے کی۔

ارسطو 1. ارسطو 384–322 ق م پہلی باقاعدہ تنقیدی کتاب بوطیقا (پوئیٹکس ) لکھی۔ ادب کے مطالعے کو ایک سائنسی بنیاد پر رکھا۔ اہم نکات: مے می سس : ادب زندگی کی عکاسی ہے۔ کتھارسس: المیہ جذباتی تطہیر کرتا ہے۔ وحدتِ عمل : ڈرامے میں ایک مرکزی کہانی ہونی چاہیے۔ پلاٹ کی اہمیت: پلاٹ کرداروں سے زیادہ اہم ہے۔

تنقید کی ابتدا تنقید کا آغاز یونان سے ہوا۔ پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح میں افلاطون نے اپنی کتاب جمہوریہ (ری پبلک ) میں شاعری اور فنونِ لطیفہ پر تنقید کی۔ اُس نے شاعری کو حقیقت سے دور قرار دیا اور کہا کہ یہ نقالی ہے جسے اُس نے (مے می سس ) کا نام دیا۔ افلاطون نے ادب کو حقیقت سے دور ظاہر کی نقالی قرار دیا اور شاعری پر اخلاقی اعتراضات کیے۔ ہومر اور دیگر شاعروں پر اس نے اعتراضات کیے کہ ان کی شاعری میں خدائوں کو غیر اخلاقی سطح پر دکھایا گیا۔ ( گویا اس کے ذہن میں بھی ایک ارفع ساخت اور مہابیانیہ تھا) بعد میں اس کے شاگرد ارسطو نے اپنی مشہور کتاب بوطیقا (پوئیٹکس) لکھی جو آج بھی تنقید کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ اُس نے فنِ شاعری کو اصول و ضوابط کے ساتھ پرکھنے کا طریقہ بتایا۔ ارسطو نے بوطیقا کے ذریعے پہلا منظم تنقیدی ڈھانچہ دیا۔ اس نے حُزنیہ، موسیقیت ، کہانی کی وحدت، کردار اور تماشائیوں پر اثر انداز ہونے والے اصول متعین کیے۔

سر فلپ سڈنی ) 1500–1600) انسان مرکزیت نشاۃ الثانیہ کا دور ۔ ادب کو انسانی فطرت، حسن اور عقل کے اظہار کے طور پر دیکھا گیا۔سر فلپ سڈنی نے ڈیفنس آف پوئزی میں ادب کی اہمیت واضح کی۔

An Apology for Poetry سر فلپ سڈنی کی تنقید کے بنیادی نکات شاعری کی برتری سڈنی کے مطابق شاعری سب فنونِ لطیفہ (فلسفہ ، تاریخ وغیرہ) سے برتر ہے۔ شاعر صرف حقیقت کو دہراتا نہیں بلکہ مثالی اور بہتر دنیا تخلیق کرتا ہے۔ شاعری کی اخلاقی افادیت شاعری کا مقصد صرف تفریح نہیں بلکہ اخلاقی تربیت بھی ہے۔ شاعر "سکھاتے بھی ہیں اور لطف بھی دیتے ہیں" فلسفہ اور تاریخ پر شاعری کی فوقیت فلسفی خشک اور پیچیدہ انداز میں بات کرتا ہے، جسے عام لوگ نہیں سمجھ پاتے۔ مورخ صرف جو ہو چکا اسے بیان کرتا ہے، لیکن شاعر جو ہونا چاہیے اس کی مثال دیتا ہے۔ شاعری کی ہمہ گیریت شاعری میں ہر صنف (حکمت، تاریخ، الٰہیات، جذبات) کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ دوسرے علوم کی نسبت زیادہ جامع فن ہے۔

شاعری پر الزامات کا جواب شاعری پر الزامات کا جواب اُس دور میں شاعری کو فضول مشغلہ یا وقت کا ضیاع کہا جاتا تھا۔ سڈنی نے کہا کہ شاعری نہ غیر اخلاقی ہے، نہ وقت کا ضیاع؛ بلکہ یہ انسانی ذہن و روح کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ شاعر کی حیثیت شاعر کو "خدا کے بعد دوسرا خالق" کہا گیا ہے، کیونکہ وہ نئی دنیا تخلیق کرتا ہے۔ شاعر کا تخیل اسے دوسرے فنکاروں سے ممتاز کرتا ہے۔ قومی و ادبی خدمت شاعری ایک قوم کی تہذیب، تاریخ اور اخلاقی قدروں کو محفوظ کرتی ہے۔ یہ انسانی کردار کو نکھارتی ہے اور معاشرے کو بہتر بناتی ہے۔

ایلگذینڈر پوپ کلاسیکی و نیو کلاسیکی دور 17 –18th Century ادب کو اصول و قواعد کے تحت پرکھا گیا۔ ڈرائیڈن اور پوپ جیسے نقادوں نے توازن، نظم و ضبط، تقلیدِ فطرت پر زور دیا۔ الیگزینڈر پوپ کے نزدیک تنقید کا اصل مقصد رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ تنقید صرف خامیاں نکالنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک فن ہے جو ادب اور شاعر دونوں کو بہتر سمت دیتا ہے۔

An Essay on Criticism (1711) الیگزینڈر پوپ کے تنقیدی نظریات فطرت کی پیروی پوپ کے نزدیک اچھا ادب وہ ہے جو فطرت کی عکاسی کرے۔ شاعر اور نقاد کو فطرت کے اصولوں اور انسانی فطرت کو سامنے رکھنا چاہیے۔ قدما یعنی کلاسیکس کی تقلید وہ یونانی و رومی مصنفین کو معیار سمجھتے تھے۔ اصل ادیب وہ ہے جو کلاسیکی اصولوں سے رہنمائی لے کر فن تخلیق کرے۔ اصول و ضوابط نیو کلاسیکی دور کی طرح پوپ بھی قواعد، توازن، ہم آہنگی اور ضبط پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی کے بجائے اصول پسندی سے ہی بڑا ادب تخلیق ہوتا ہے۔

ایلگزینڈر پوپ کے نظریات نقاد کے اوصاف نقاد کو علم و بصیرت کے ساتھ انصاف اور عاجزی بھی رکھنی چاہیے۔ سطحی یا مغرور نقاد ادب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اعتدال (Moderation) پوپ کا زور اعتدال اور میانہ روی پر ہے۔ وہ انتہا پسندی یا جذباتی غلو کے مخالف ہیں۔ فن کا مقصد ادب اور شاعری کا مقصد تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاح اور اخلاقیات ہے۔ حسن اور نیکی کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ تنقید پر تنقید انہوں نے کمزور نقادوں کی مذمت کی جو صرف عیب جوئی کرتے ہیں۔ اچھا نقاد وہ ہے جو تخلیق کار کو سمجھ کر، مثبت اور منصفانہ رائے دے۔

ورڈزورتھ ، کالرج رومانویت 1798–1830 مصنف کی شخصیت اور تخلیقی وجدان پر زور۔ ورڈزورتھ: "شاعری طاقتور جذبات کا فطری اظہار ہے۔" کولرج: تخیل کو شاعری کا بنیادی جوہر قرار دیا۔

ورڈزورتھ کے نظریات ورڈزورتھ کے تنقیدی نظریات Preface to Lyrical Ballads, 1800/1802 شاعری کی تعریف شاعری ’’انسانی جذبات کا فطری اظہار‘‘ ہے۔ ’’ Poetry is the spontaneous overflow of powerful feelings, recollected in tranquility‘‘ موضوعات شاعری کے لیے عام لوگوں کی زندگی اور دیہی فضا زیادہ موزوں ہے۔ عام انسانوں کے جذبات سب سے زیادہ خالص اور فطری ہوتے ہیں۔ زبان شاعری کی زبان عام انسانوں کی روزمرہ گفتگو ہونی چاہیے۔

ورڈزورتھ کے نظریات شاعر کی حیثیت شاعر دوسروں سے زیادہ حساس ہوتا ہے، اس لیے وہ معمولی تجربات کو بھی شدت سے محسوس کرتا ہے اور بیان کرتا ہے۔ اخلاقی پہلو شاعری کا مقصد انسان کے دل کو بہتر بنانا اور اخلاقی قدروں کو ابھارنا ہے۔

کالرج کے نظریات شاعری کی تعریف میں ترمیم کالرج نے ورڈزورتھ کی تعریف کو ’’نامکمل‘‘ کہا۔ اس کے نزدیک شاعری صرف جذبات کا جوش نہیں بل کہ خیال اور تخیل کے منظم اظہار کا نام ہے ۔ تخیل (امیجی نیشن) کالرج کے نزدیک سب سے اہم طاقت امیجی نیشن ہے۔ پرائمری امیجی نیشن : انسانی ذہن کی وہ فطری قوت جو مظاہر کو سمجھتی ہےاور محسوس کرتی ہے۔ سیکنڈری امیجی نیشن تخلیقی قوت جو عام تجربات کو دوبارہ تشکیل دے کر آرٹ اور شاعری میں بدل دیتی ہے۔ فینسی اور امیجی نیشن میں فرق محض ذہنی کھیل یا تصویریں جوڑنے کا نام ہے اصل تخلیقی اور زندہ قوت ہے۔

کالرج کے نظریات شاعری کے موضوعات کالرج کے نزدیک غیر معمولی، ماورائی اور پرسرار موضوعات بھی شاعری کے لیےموزوں ہیں مثال (دا رائم آف دا اینشی انٹ میرینر) ورڈزورتھ پر تنقید کالرج نے کہا کہ ورڈزورتھ کا ’’عام زبان‘‘ کا نظریہ حد سے زیادہ سخت ہے۔ شاعری کی زبان کو عام گفتگو سے بہتر اور بلند تر ہونا چاہیے۔

میتھیو آرنلڈ وکٹورین تنقید میتھیو آرنلڈ ادب کو اخلاقی قوت اور "زندگی کا مطالعہ" کہا۔ کہا۔ شاعری کو ادب کو سماجی اور اخلاقی تناظر میں پڑھا گیا۔ وکٹورین عہد : یہ دور ۱۸۳۷ ء سے ۱۹۰۱ ء تک رہا۔ اس عرصے میں برطانیہ سیاسی، سماجی اور ادبی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ ہوا۔ صنعت و حرفت کی ترقی، سائنسی انکشافات اور اخلاقی قدروں پر زور اس عہد کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ ادب میں چارلس ڈکنز، الفریڈ لارڈ ٹینی سن، رابرٹ براوننگ اور میتھیو آرنلڈ جیسے بڑے نام اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں

میتھیو آرنلڈ کے تنقیدی تصورات ادب کا مقصد ادب صرف جمالیاتی لذت نہیں دیتا بلکہ زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور اخلاقی شعور پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ان کے نزدیک ادب ’’زندگی کا تنقیدی مطالعہ‘‘ہے۔ شاعری کی تعریف شاعری "زندگی کی تنقید" ہے، جو انسانی تجربات کو اعلیٰ اور بہترین خیالات و جذبات کی روشنی میں پیش کرتی ہے۔ شاعر کا کام ہے کہ وہ ’’زندگی کو بہتر اور عظیم تر انداز میں دکھائے‘‘۔ تنقید کا مقصد تنقید کا اصل کام "زندگی کو روشنی میں لانا اور بہترین خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کرنا" ہے۔ نقاد کو کسی مخصوص مکتبہ فکر یا تعصب کے بغیر سچائی کو پرکھنا چاہیے۔

میتھیو آرنلڈ کے تنقیدی نظریات Disinterestedness غیر جانبداری: آرنلڈ کے نزدیک نقاد کو ہمیشہ غیر جانب دار، ایماندار اور تعصب سے پاک ہونا چاہیے۔ ذاتی پسند و ناپسند یا وقتی مفاد کو تنقید پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ Touchstone Method معیار کا اصول آرنلڈ نے تنقید کے لیے ’’ٹچ اسٹون طریقہ‘‘ پیش کیا۔ ان کے مطابق ادب کو جانچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا موازنہ دنیا کے عظیم شاعروں (ہومر، شیکسپیئر، دانتے، ملٹن وغیرہ) کے اعلیٰ اقتباسات سے کیا جائے۔ اگر کوئی فن پارہ ان معیاروں پر پورا اترتا ہے تو وہ عظیم ادب ہے۔

میتھیو آرنلڈ کے تنقیدی نظریات ثقافت اور ادب آرنلڈ کے نزدیک ’’ثقافت‘‘ کا مقصد ہے انسانی زندگی کو اعلیٰ ترین اقدار اور سچائیوں کی روشنی میں ڈھالنا۔ ادب اور تنقید اس ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادب اور اخلاقیات آرنلڈ ادب کو اخلاقی تربیت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اچھا ادب وہ ہے جو انسان کو بہتر، مہذب اور باشعور بنائے۔

ایف آر لیوس ایف۔آر۔ لیوس (1895–1978) بیسویں صدی کا بڑا نقاد۔ لبرل ہیومن ازم کا نمائندہ ۔ اہم نکات : ادب کو اخلاقی اور انسانی اقدار کا ذریعہ سمجھا۔ عظیم روایات میں بڑے ناول نگاروں (جین آسٹن، جارج ایلیٹ، ہنری جیمز، جوزف کونراڈ) کو مرکزی مقام دیا۔ ادب کا مطالعہ "زندگی کو بہتر سمجھنے" کا ذریعہ ہے۔ قاری کو سنجیدہ، حساس اور اخلاقی رویہ اختیار کرنے کی تلقین۔

قرونِ وسطیٰ اور اسلامی روایت اسلامی دنیا میں تنقید کی بنیاد بلاغت، معانی، بیان اور بدیع پر قائم ہوئی۔ جاحظ نے البيان والتبيين میں ادب، زبان اور انسانی نفسیات پر بحث کی۔ قدامہ بن جعفر نے نقد الشعر میں تنقید کو اصولی اور منطقی بنیاد فراہم کی۔ بعد کے ناقدین میں عبدالقاہر جرجانی (دلائل الاعجاز، اسرار البلاغہ) اور حازم قرطاجنی نمایاں ہیں۔ اسلامی تنقید نے ادب کو لسانیات، بلاغت اور دینی جمالیات سے جوڑا۔

یورپی نشاۃ الثانیہ اور جدید روایت نشاۃ الثانیہ کے بعد ادب کو آزاد انسانی تخلیق کے طور پر پرکھا جانے لگا۔ کلاسیکی تنقید نے قواعد و ضوابط پر زور دیا (جان ڈرائیڈن، الیگزینڈر پوپ)۔ رومانوی تنقید نے فرد، تخیل اور جذبات کو مرکزیت دی (کولرج، ورڈزورتھ، شیلے)۔ جدید و سائنسی تنقید نے متن کی ساخت، لسانیات، قاری اور سماج کے کردار کو شامل کیا (ایلیٹ، بارتھ، ڈریدا، فوکو وغیرہ)۔

اردو تنقید کا ارتقا (الف) ابتدائی دور اردو میں ابتدائی تنقید زیادہ تر اخلاقی و اصلاحی نوعیت کی تھی۔ محمد حسین آزاد (آبِ حیات) اور الطاف حسین حالی (مقدمہ شعر و شاعری) کو اردو تنقید کا باقاعدہ بانی سمجھا جاتا ہے۔ حالی نے شاعری کے لیے "سچائی، جوش، اصلیت اور فطرت" کو معیار قرار دیا۔ (ب) جدید دور شبلی نعمانی نے شعر العجم کے ذریعے تاریخِ تنقید کی بنیاد رکھی اور ارسطوئی اصولوں کو اسلامی و مشرقی ادب کے ساتھ جوڑا۔ محمد حسن عسکری نے مغربی فکر کو اردو تنقید میں متعارف کرایا اور ادب کو تہذیبی و فکری سیاق میں پرکھا۔ سلیم احمد، شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ نے ساختیات، پس ساختیات اور بین المتونیات کے اصول اردو تنقید میں داخل کیے۔

ادبی تھیئری ادبی تھیئری جسے کبھی کبھار تنقیدی تھیئری یا محض تھیئری بھی کہا جاتا ہے، اور جو اب ادب کے مطالعات میں "ثقافتی تھیئری" کی صورت اختیار کر رہی ہے، دراصل اُن تصورات اور فکری مفروضات کا مجموعہ ہے جن پر ادبی متون کی تفہیم اور تشریح کی بنیاد قائم ہے۔ ادبی تھیئری سے مراد وہ تمام اصول ہیں جو یا تو خود متنی تجزیے سے اخذ کیے جاتے ہیں یا پھر متن سے باہر کے علمی سرمائے سے حاصل ہوتے ہیں اور جنہیں مختلف تاویلی و تشریحی صورتِ حال میں برتا جا سکتا ہے۔ جی، آپ کے دیے گئے متن کو ادبی اور بامحاورہ اردو میں یوں منتقل کیا جا سکتا ہے :

تنقیدی تھیئری کی ضرورت اور اہمیت ادبی تھیئری کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ "ادبی تھیئری" محض ادب کے مطالعے کا ایک زاویہ نہیں بلکہ ادب کو علمی، فکری اور سائنسی انداز میں سمجھنے کا ذریعہ ہے۔ یہ قاری کو بتاتی ہے کہ متن کو کس طرح پڑھا جائے، کس نقطہِ نظر سے دیکھا جائے اور اس میں پوشیدہ معانی کو کیسے دریافت کیا جائے۔ ۱۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے خوردبین سے کسی جسم کا مطالعہ کیا جائے۔ ۲۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کے موبائیل فون میں تصاویر کے فلٹرز ہوتے ہیں۔ ۳۔ یہ آپ کا ایک بالکل مختلف تناظر فراہم کرتی ہے جس کے ذریعے آپ متن کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کی تفہیم کرتے ہیں۔

ادبی تھیئری کی اہمیت متن کی گہری تفہیم : یہ قاری کو محض کہانی یا نظم پڑھنے تک محدود نہیں رکھتی بلکہ اس کے پسِ منظر، اسلوب، زبان اور ساخت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ قاری کو متن کو مختلف نقطۂ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ ادب کو وسیع تناظر میں دیکھنا : ادب کو صرف فن نہیں بلکہ تاریخ، سماج، سیاست، فلسفہ اور نفسیات سے جوڑ کر سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

تنقیدی شعور کی نشوونما قاری محض ادب کو پڑھنے والا نہیں رہتا بلکہ اس پر سوال اٹھاتا ہے، اس کا تجزیہ کرتا ہے اور اپنی رائے قائم کرتا ہے۔ قاری اور متن کے تعلق کی وضاحت ادبی تھیئری یہ واضح کرتی ہے کہ متن کا مطلب صرف مصنف کی نیت پر منحصر نہیں بلکہ قاری کی نظر اور سیاق و سباق سے بھی تشکیل پاتا ہے۔

لبرل ہیومن ازم ۔ تھیئری قبل از تھیئری تعریف لبرل ہیومن ازم وہ تنقیدی رویہ ہے جو ادب کو ایک آفاقی انسانی تجربہ سمجھتا ہے اس میں یہ تصور غالب ہے کہ ادب فرد اور انسان کی سچائی کو براہِ راست بیان کرتا ہے، اور ہر متن اپنی معنویت کے لیے خود کفیل ہوتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر ادب کو سماج، تاریخ اور سیاست سے الگ کر کے محض فن اور انسانی تجربے کے طور پر پڑھنے کی تاکید کرتا ہے۔

معروف نقاد معروف نقاد میتھیو آرنلڈ نے ادب کو "زندگی کی تنقید" کہا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے ادبی روایت اور انسانی تجربے پر زور دیا۔ آئی اے رچرڈز نے پریکٹیکل کریٹی سزم میں متن کو براہِ راست پڑھنے کی تاکید کی۔ ایف آر لیوس نے اخلاقی اقدار اور فرد کی تربیت پر زور دیا۔ بعد کے نقادوں نے (ساختیات، مابعد ساختیات وغیرہ) نے اس رجحان پر سخت تنقید کی، مگر یہ دبستان بیسویں صدی کے وسط تک غالب رہا۔

لبرل ہیومن ازم کا دور یہ سوچ نشاۃِ الثانیہ سے ہی پروان چڑھنے لگی جب "انسان" کو کائنات کا مرکز مانا جانے لگا سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ہیومن ازم ادب کے مطالعے کا اہم رویہ تھا۔ انیسویں صدی میں وکٹورین دور میں اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں، جب ادب کو اخلاقی اور انسانی تربیت کا ذریعہ سمجھا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک، خاص طور پر ۱۹۳۰ء سے ۱۹۵۰ء کے درمیان، انگلستان اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں یہی غالب تنقیدی نظریہ تھا۔ لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد مختلف نئے نظریات نے اس کی اجارہ داری توڑ دی۔

لبرل ہیومن ازم کے دس بنیادی نکات ۱۔ اچھا ادب آفاقی ہوتا ہے ۲۔ یہ ہر زمانے اور ہر معاشرے کے لیے بامعنی ہوتا ہے۔ ۳۔ انسانی فطرت ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ ۴۔ ادب انسان کی مشترکہ فطرت اور تجربے کا اظہار کرتا ہے۔ ۵۔ متن کی خود مختاری ادب کو سمجھنے کے لیے متن پر توجہ دی جاتی ہے، نہ کہ سیاسی یا سماجی پس منظر پر۔ ۔

لبرل ہیومن ازم کے دس بنیادی نکات ۶۔ادب کو اس کے فنکارانہ حسن کے لیے سراہنا چاہیے زبان، اسلوب اور جمالیاتی پہلو اہم ہیں۔ ۷۔ مصنف کی نیت اور ذاتی تجربہ اہم ہیں یہ خیال تھا کہ ادیب کا ذاتی پس منظر اور نیت متن کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ۸۔ادب کا مطالعہ سنجیدگی سے ہونا چاہیے اسے محض کھیل یا وقتی تفریح نہ سمجھا جائے۔ ۹۔ ادب اپنی داخلی معنویت رکھتا ہے اس کی اہمیت باہر سے نہیں آتی بلکہ خود اس کی زبان اور ساخت سے ظاہر ہوتی ہے۔ ۱۰۔ ادب ذوق و لذت اور فکری تسکین فراہم کرتا ہے ادب پڑھنے کا مقصد ذہنی سکون اور فکری ارتقا ہے۔

روسی ہیئت پسند تمہید روسی ہیئت پسندی بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں روس میں وجود میں آئی۔ یہ تحریک اس وقت کے سیاسی، فکری اور ادبی ماحول میں وجود میں آئی۔ ان کا مقصد ادب کو سائنس کی طرح منظم اور اصولی بنیادوں پر پرکھنا تھا۔ پس منظر اس وقت ادب پر زیادہ تر سماجی، سیاسی یا اخلاقی نقطۂ نظر سے بحث ہو رہی تھی۔ روسی ہیئت پسندوں نے کہا کہ ادب کو غیر ادبی چیزوں سے جوڑنے کے بجائے اس کی ادبیت پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کے نزدیک ادب کی اصل قدر اس کی ہیئت اور تکنیک میں ہے، نہ کہ صرف مواد یا موضوع میں۔

اہم شخصیات وکٹر شکلووسکی وکٹر شکلووسکی نے ڈی فمیلئرازیشن یا اجنبیت پیدا کرنے کا تصور دیا۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ عام چیزوں کو نئے اور غیر مانوس طریقے سے دکھائے تاکہ قاری کو چونکایا جاسکے۔ رومن جیکب سن لسانیات کو ادب کی تنقید میں داخل کیا۔ کہا کہ ادب کی "شعریت" بنیادی طور پر زبان کے استعمال سے بنتی ہے۔

مرکزی نظریات ادبیت ادب کو ادب بنانے والی چیز اس کی ہیئت، زبان اور تکنیک ہے، نہ کہ موضوع یا اخلاقی مقصد۔ اجنبیت فن قاری کے معمول کے تجربے کو "غیر مانوس" بنا دیتا ہے تاکہ وہ نئی آنکھ سے دیکھ سکے۔ فن بطور تکنیک ادب کا تجزیہ فنکارانہ "ہنر" اور "ساختی اصول" کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ متنی خود مختاری ادب کو سماج یا مصنف سے الگ کر کے متن کی اندرونی ساخت پر غور کیا جانا چاہیے۔

اثرات روسی ہیئت پسندی کے خیالات نے بعد میں ساختیات اور پس ساختیات کی راہ ہموار کی۔ جیکب سن کے لسانی اصول فرانسیسی ساختیات پر براہ راست اثر انداز ہوئے۔ اجنبیت کا تصور آج بھی فن و ادب کے مطالعے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اردو تنقید پر اثرات براہِ راست روسی ہیئت پسند تحریک کا اثر اردو میں نہیں آیا، لیکن شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ نے جب ساختیات و لسانیات کو اردو تنقید میں متعارف کرایا تو اس کے پس منظر میں روسی ہیئت پسندی کی جھلک موجود تھی۔ فاروقی کا "شعر غیر شعر اور نثر" اور نارنگ کی "ساختیات اور پس ساختیات" ہیئت پسندی کے اثرات کی مثالیں ہیں۔

ساختیات تمہید ساختیات ایک فکری و تنقیدی تحریک ہے جس نے بیسویں صدی کے وسط میں ادب، لسانیات، فلسفہ اور سماجی علوم پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ نقطۂ نظر یہ کہتا ہے کہ معنی فرد یا متن میں نہیں بلکہ ساخت اور تعلقات میں پنہاں ہوتا ہے۔ تعریف ساختیات ایک لسانیاتی اور فکری دبستان ہے جو ادب، زبان اور ثقافت کو ساختوں کے نظام کے ذریعے سمجھنے پر زور دیتا ہے۔ اس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کسی بھی متن یا مظہر کو اس کے اجزاء کی باہمی ربط اور تعلق کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ انفرادی معنی کے بجائے ساختی تعلقات اور بائنری اپوزیشنز (ثنوی جوڑے) پر توجہ دی جاتی ہے۔

ساختیات کی بنیادیں ساختیات کی بنیاد لسانیات میں رکھی گئی، خاص طور پر فرڈی نینڈ ڈی سوسئیر کی فکر پر قائم ہوئی۔ سوسئیر نے زبان کو "نظام" قرار دیا جس میں ہر لفظ پنی معنویت دوسرے الفاظ سے تعلق کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اس نے دو اہم اصطلاحات دیں: Signifier دال = لفظ یا صوتی علامت Signified مدلول = ذہنی تصور یا معنی

ساختیات کے بنیادی اصول زبان = نشانیوں کا نظام Signifier + Signified = Sign ۔ متن کو اس کی ساخت اور تعلقات کے ذریعے سمجھنا چاہیے، نہ کہ صرف مواد کے ذریعے۔ بائنری اپوزیشنز جیسے: زندگی/موت، نیکی/بدی، مرد/عورت، موجودگی/غیر موجودگی۔ بیانیہ کا مطالعہ ولادی میر پروپ کے مطابق تمام کہانیوں میں بنیادی ڈھانچے مشترک ہوتے ہیں۔ آفاقی ساختیں انسانی ثقافت اور ادب عالمی ڈھانچوں کے تحت کام کرتے ہیں۔ مصنف یا قاری نہیں بلکہ متن اور اس کی ساخت اصل مرکز ہے۔

پسِ ساختیات پسِ ساختیات ایک فکری و تنقیدی دبستان ہے جو ساختیات کے ردِ عمل کے طور پر ابھرا۔ ساختیات معنی کو "ساخت" اور "نظام" سے وابستہ سمجھتی تھی، مگر پسِ ساختیات کا موقف یہ ہے کہ : معنی کبھی حتمی نہیں ہوتا، ہمیشہ موخر ہوتا ہے ۔ متن کی "ساخت" کو مستحکم نہیں مانا جاتا بل کہ اسے سیال سمجھا جاتا ہے۔ اور غیر مستحکم سمجھا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں : ادب اور زبان میں کوئی ایک مطلق معنی نہیں، ہر قاری اپنی تاویل پیدا کر سکتا ہے۔

معروف نقاد Jacques Derrida ۔ Deconstruction ردِ تشکیل اور تضادات نمایاں کرنا Roland Barthes ۔ Death of the Author مصنف کی موت Michel Foucault - علم و طاقت Power/Knowledge خطابات Discourses Julia Kristeva – Intertextuality ہر متن دوسرے متون کے ساتھ جڑا ہوا ہے Jean Baudrillard - Simulacra & Hyperreality حقیقت اور نقل کے درمیان فرق مٹ جانا

بنیادی اصول معنی غیر مستحکم ہے کوئی ایک حتمی معنی نہیں، ہر معنی دوسروں پر منحصر اور مسلسل مؤخر ہوتا ہے Derrida: différance ۔ مصنف کی موت رالاں بارتھ ؛ متن کا معنی مصنف کی نیت پر نہیں بلکہ قاری کی تاویل پر منحصر ہے۔ بین المتونیت ہر متن دوسرے متون کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، کوئی متن اکیلا نہیں۔

امثال منٹو – ٹھنڈا گوشت روایتی اخلاقیات کو چیلنج کرتا ہے، اور متن کا کوئی ایک "اخلاقی پیغام" نہیں بلکہ مختلف قارئین مختلف تاویلات نکالتے ہیں۔ انتظار حسین – آگ کا دریا تاریخ اور اساطیر کی "واحد تعبیر" ممکن نہیں، قاری اپنے پس منظر کے مطابق معنی اخذ کرتا ہے۔ پروین شاکر کی شاعری نسوانیت، محبت، خودی اور سماج کے تضادات کو مختلف زاویوں سے پڑھا جا سکتا ہے (بائنری اپوزیشنز ٹوٹ جاتی ہیں)۔ انگریزی ادب میں Roland Barthes – “The Death of the Author” کہتا ہے کہ متن کا مطلب قاری طے کرتا ہے، مصنف کی نیت غیر متعلق۔ Jacques Derrida – Deconstruction of Rousseau معنی ہمیشہ التوا کا شکار ہوتا ہے، اور متن میں تضاد چھپا ہوتا ہے۔ T. S. Eliot – The Waste Land اس کی ایک نہیں بلکہ درجنوں تعبیرات ہیں، بین المتونیت کا بہترین نمونہ

اردو کے کچھ معروف نقاد مجنوں گورکھپوری :   اردو ادب کے ایک ممتاز نقاد اور شاعر تھے، جن کی تنقید نگاری بہت مشہور ہے۔ شمس الرحمان فاروقی :   اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھنے والے نقاد، شاعر اور نظریہ دان تھے، جن کی پیدائش 1935 میں ہوئی تھی۔  کلیم الدین احمد :   اردو کے معروف نقاد ہیں، جن کا اصل نام رحیم الدین احمد تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب "اپنی تلاش میں" میں اپنی سوانحی تفصیلات درج کی ہیں۔  اختر حسین رائے پوری :   اردو کے معروف نقادوں میں شمار ہوتے ہیں اور ترقی پسند تنقید کے دائرے میں ان کا نام آتا ہے۔ 

اردو کے کچھ معروف نقاد سید احتشام حسین :   ترقی پسند نقادوں کی فہرست میں شامل ایک اور اہم شخصیت ہیں۔  سید سجاد ظہیر :   اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بانیوں میں سے ایک اور ایک اہم نقاد تھے۔  عبادت بریلوی :   اردو کے ایک اور اہم نقاد ہیں جن کا شمار ترقی پسند تنقید کے ناقدین میں ہوتا ہے۔  سید وقار عظیم :   اردو ادب کے ایک معروف نقاد ہیں جن کا نام ترقی پسند تنقید کے ساتھ جڑا ہوا ہے

نمائندہ شخصیات تعریف / خصوصیات دبستان محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی ادب کو زبان و بیان، صنائع و بدائع اور اخلاقی اصلاح کے زاویے سے دیکھا گیا۔ روایتی / کلاسیکی دبستان شبلی نعمانی، سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری جذبات، حسن، محبت اور فرد کی شخصیت کو اہمیت دی گئی۔ رومانوی دبستان سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، احتشام حسین ادب کو سماج، معیشت اور طبقاتی جدوجہد سے جوڑا گیا؛ مقصد: ادب برائے زندگی۔ ترقی پسند دبستان (1936) وزیر آغا، سلیم احمد، انور سدید فرد کے داخلی احساسات، وجودی کرب، علامت اور تجرید پر زور۔ جدیدیت ) (1950–70) ناصر عباس نیر، آصف فرخی، فتح محمد ملک متن کو کھلا اور کثیر المعنی قرار دیا؛ قاری کی اہمیت پر زور۔ مابعد جدیدیت (1980+) کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، ثمینہ رحمن وغیرہ ادب کو عورت کے نقطۂ نظر سے دیکھا گیا؛ عورت کی آواز اور شناخت کو نمایاں کیا۔ نسائی تنقید ) ناصر عباس نیر، شمس الرحمٰن فاروقی (ثقافتی پہلو) ادب کو ماحولیات، ثقافت اور شناخت کے تناظر میں پڑھا گیا۔ ماحولیاتی و ثقافتی دبستان (جدید رجحانات) اردو تنقید کے دبستان

مابعد جدیدیت تعارف و تعریف مابعد جدیدیت جدیدیت کے ردِعمل میں پیدا ہونے والی ایک فکری و تنقیدی تحریک ہے جس نے "مرکزیت، معروضیت اور آفاقی سچائی" کے مہابیانیوں پر سوال اٹھایا۔ یہ نظریہ حقیقت اور متن کی واحد تعبیر کو رد کرتا ہے اور کثیرالمعنویت، بیانیوں پر زور دیتا ہے۔ لیوٹارڈ کے مطابق مابعد جدیدیت کی سب سے بنیادی پہچان ہے: " Incredulity toward metanarratives" یعنی "بڑے بیانیوں پر عدم یقین"

معروف نظریہ ساز ژاک دریدا، م ِشل فُوکو ، ژاں فرانسوا لیوتارد ، بودغیاغ ، رولاں بارتھ تاریخی پس منظر بعد از دوسری جنگِ عظیم : مغربی دنیا میں سرمایہ داری، سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی اور میڈیا کے پھیلاؤ کے نتیجے میں جدیدیت پر تنقید۔ 1950 s–1960s : فلسفے اور فنون میں ابتدائی اثرات۔ انیس سو ستر تا نوے کے دوران عروج، خاص طور پر ادب، فنِ تعمیر، فلم اور ثقافتی مطالعہ میں۔ آج : گلوبلائزیشن، ڈیجیٹل کلچر، ورچوئل ریئلٹی اور مصنوعی ذہانت کے مباحث میں بہت اہم ہے۔

بنیادی نظریات بنیادی اصول مطلق حقیقت کا انکار : حقیقت نسبتی ہے، سیاق پر منحصر ہے۔ مہابیانیوں کا رد : سائنس، مذہب، ترقی جیسے بڑے بیانیے مشکوک ہیں۔ ردِ تشکیلیت : متن کے تضادات اور غیر یقینی پہلوؤں کو سامنے لانا۔ بین المتونیت : ہر متن دوسرے متون کے ساتھ ربط میں ہے۔ معنی کی تکثیریت : ایک متن کے کئی معنی ممکن ہیں۔ سمیولیشن :حقیقت اور نمائندگی میں فرق کا خاتمہ، میڈیا اور تصویری ثقافت کی بالا دستی۔ مصنف کی موت : مصنف کی نیت/ارادہ اہم نہیں؛ قاری معنی تخلیق کرتا ہے۔

پسِ ساختیات ساختیات کے ردِ عمل میں جو فکری و تنقیدی تحریک سامنے آئی اُسے پسِ ساختیات کہا جاتا ہے۔ یہ 1960 کی دہائی کے بعد خاص طور پر فرانس میں نمایاں ہوئی۔ پسِ ساختیات دراصل ساختیات کی مضبوطی کو کمزور کرتی ہے اور اس کے قطعی اصولوں پر سوال اُٹھاتی ہے۔ اہم مفکرین: ژاک دَریدا کا تصورِ ردِ تشکیلیت رولان بارتھ کا تصور : مصنف کی موت مِشل فُوکو – طاقت اور علم کا تعلق ژاک لاکان – نفسیاتی ساختیات اور زبان

بنیادی نکات کثرتِ معانی (Multiplicity of Meanings) متن کا ایک حتمی اور قطعی مطلب نہیں ہوتا، بلکہ ہر قاری اپنی فہم اور تناظر کے مطابق نئے معنی اخذ کرسکتا ہے۔ غیرمرکزیت (Decentering) ساختیات ایک "مرکز" یا بنیادی ڈھانچے پر زور دیتی تھی، لیکن پسِ ساختیات یہ مانتی ہے کہ متن کا کوئی مرکز نہیں، بلکہ معنی مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ اختلاف / ڈیفرنس (Différance) ژاک دَریدا کے مطابق الفاظ اپنے معنی براہِ راست نہیں دیتے بلکہ دوسرے الفاظ کے فرق اور حوالوں کے ذریعے بنتے ہیں۔ یوں معنی ہمیشہ التوا میں رہتے ہیں۔

بنیادی نکات مصنف کی موت (Death of the Author) رولان بارتھ کے مطابق متن کے معنی صرف مصنف کے ارادے سے طے نہیں ہوتے بلکہ قاری کا کردار زیادہ اہم ہے۔ تنقیدی رویہ پسِ ساختیات متن، زبان، طاقت، علم اور معاشرتی ڈھانچوں کو سوالیہ نشان کے طور پر دیکھتی ہے۔

مابعد نو آبادیاتی تناظر مابعد نو آبادیات ایک فکری و تنقیدی دبستان ہے جو نوآبادیاتی دور کے اثرات، سامراجی ڈسکورس، اور آزادی کے بعد کی معاشرتی، ثقافتی و ادبی صورتِ حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ نوآبادیاتی طاقت کے بقیہ اثرات کو بے نقاب کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ نوآبادیات نے کس طرح زبان، شناخت، تاریخ، اور ثقافت کو تشکیل دیا۔ سادہ الفاظ میں: مابعد نو آبادیات اس بات کا مطالعہ ہے کہ کس طرح سامراجی نظام نے محکوم اقوام کے ادب، ذہنیت اور شناخت کو متاثر کیا، اور آزادی کے بعد یہ اثرات کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔

مابعد نو آبادیاتی تناظر : پس منظر تاریخی پس منظر Colonial Era (16th–20th centuries) یورپی سامراج (انگلینڈ، فرانس، اسپین وغیرہ) نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ پر قبضہ کیا۔ اس دور میں ادب اور تعلیم کے ذریعے استعماری ذہنیت کو پروان چڑھایا گیا۔ بعد از آزادی (1945 کے بعد) افریقہ اور ایشیا کے ممالک نے آزادی حاصل کی۔ ادبی اور فکری سطح پر سامراجی ورثے کو چیلنج کرنے کی تحریک اٹھی۔ 1970 s–1980s پوسٹ کلونیئل تھیئری ایک باقاعدہ علمی دبستان کے طور پر سامنے آئی۔ ایڈورڈ سعید کی اوریئنٹل ازم نے اسے عالمی سطح پر مضبوط بنیاد فراہم کی۔

معروف نظریہ ساز ایڈورڈ سعید : مشرق کی مغرب کے ہاتھوں نمائندگی اور استشراق کا بیانیہ گائتری سپیویک : محکوم طبقے کی معدوم آوازیں ہومی کے بھابھہ : ممکری ، ہائیبرڈیٹی ، ایمبی ولنس فرانز فینن : افتادگانِ خاک (نوآبادیات کے نفسیاتی و معاشرتی اثرات) نگُوگی وا تھوانگ : ڈی کولونائزیشن ، نوآبادیاتی زبان و فکر کے خلاف مزاحمت

مارکسیت مارکسیت ایک فکری، فلسفیانہ، سماجی اور ادبی تنقیدی نظریہ ہے جو کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے خیالات پر مبنی ہے۔ اس کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ معاشرے کی ساخت معیشت اور مادی حالات پر قائم ہوتی ہے، اور ادبیات، فلسفہ، قانون اور مذہب سب اس معاشی ڈھانچے کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔ ادب کو بھی ایک "سپر اسٹرکچر" کا حصہ سمجھا جاتا ہے جو "بنیاد" یعنی معاشی حالات سے تشکیل پاتا ہے۔

مارکسیت کا تاریخی پس منظر انیسویں صدی: صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں طبقاتی فرق اور سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف مارکس اور اینگلز نے فلسفیانہ اور عملی تحریک شروع کی۔ کامیونسٹ مین فسٹو کی اشاعت۔ بعد میں روس، چین اور دیگر ممالک میں یہ نظریہ سماجی و سیاسی سطح پر نافذ بھی ہوا۔ بیسویں صدی میں ادب و تنقید میں "مارکسی تنقید" ایک منظم دبستان کے طور پر سامنے آئی۔

مارکیست کے اہم مفکر کارل مارکس – داس کیپٹل اور کامیونسٹ مینی فسٹو کی بنیاد رکھنے والے مصنف۔ فریڈرک اینگلز – مارکس کے شریکِ فکر۔ جارج لوکاش – " ریئلزم" اور "کلاس کانشسنس" پر زور۔ انتونیو گرامشی – " ہیجمنی" کا تصور۔ لوئی آلتھیوسر – ادارہ جاتی اثرات۔ ٹیری ایگلٹن جدید مارکسی نقاد، ادب اور کلچر پر نمایاں کام۔

مارکسیت کے بنیادی اصول Base and Superstructure معاشی نظام سیاست، مذہب، قانون، ادب کو کنٹرول کرتا ہے۔ Class Struggle تاریخ کا محرک مختلف طبقات (بورژوا اور پرولتاریہ) کے درمیان جدوجہد ہے۔ Ideology ادب اور ثقافت اکثر حکمران طبقے کی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ Reflection of Society ادب سماجی اور معاشی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ Commitment of Literature ادب کو عام آدمی اور مزدور طبقے کے مسائل پیش کرنے چاہییں۔

مارکسیت کے اطلاق کا طریقہ اطلاق کا طریقہ ادبی متن پر مارکسی تنقید عام طور پر یوں کی جاتی ہے: سماجی و معاشی پس منظر: متن میں کن طبقات کو دکھایا گیا؟ ان کے درمیان طاقت کا رشتہ کیا ہے؟ کرداروں کا تجزیہ: کیا کردار حکمران طبقے یا محکوم طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں؟ آئیڈیالوجی کا جا ئزہ: متن کس قسم کی سوچ یا نظریہ پھیلانے کی کوشش کرتا ہے؟ حقیقت اور مادی صورتِ حال: کیا متن حقیقت پسند ہے؟ کیا یہ مادی حالات کی وضاحت کرتا ہے؟

اسلوبیات اسلوبیات ادب اور لسانیات کا وہ میدان ہے جو متن کے اسلوب کا مطالعہ کرتا ہے۔ یعنی: کسی ادبی یا غیر ادبی تحریر میں الفاظ، تراکیب، جملوں کے ڈھانچے، آہنگ، صوتیات اور معنویاتی جہات کا گہرا تجزیہ کرنا۔ اس کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ زبان کے انتخاب اور اندازِ بیان کے ذریعے کس طرح معنی، تاثیر اور جمالیات پیدا ہوتے ہیں۔

اہم مفکرین ارسطو : خطابت اور اسلوب کے اولین اصول۔ فرڈی نینڈ ڈی سوسیور: لسانیات کی ساختیاتی بنیادیں۔ رومن جیکب سن :لسانیاتی افعال اور ادبی زبان کا اختصاص۔ مائیکل ہالیڈے : فنکشنل لنگوئسٹکس اور رجسٹر انیلسس جیفری لیچ : جدید اسلوبیات کی بنیاد رچرڈز اور اوگڈن: معنی کے معنی میں لسانی پہلو۔

بنیادی اقسام لسانیاتی اسلوبیات : متن کا لسانی سطح پر تجزیہ۔ ادبی اسلوبیات : ادبی متون میں زبان اور جمالیات کا باہمی رشتہ۔ افادی اسلوبیات : زبان کے سماجی استعمال اور اسلوب کا تعلق۔ جمالیاتی اسلوبیات : اسلوب کو حسنِ بیان کے نقطۂ نظر سے دیکھنا۔ علمی/تجزیاتی اسلوبیات: جدید کمپیوٹر لسانیات کے ذریعے متن کا تجزیہ۔

اسلوبیات کے بنیادی اصول اسلوبیات میں کسی متن پر درج ذیل طریقوں سے عمل کیا جاتا ہے: صوتیاتی سطح ( فونولوجیکل) : آہنگ، قافیہ، وزن، ہم صوتی الفاظ۔ صرفیاتی سطح : (مارفولوجیکل)الفاظ کی ساخت اور تکرار۔ نحوی سطح : سنٹیک ٹیکل):جملوں کی بناوٹ، طوالت، الٹ پھیر۔ لغوی سطح : (لیکسی کل)الفاظ کے انتخاب، مترادفات و متضاد الفاظ کا استعمال۔ معنویاتی سطح ( سیمنٹک) :استعارے، تشبیہات، کنایے، علامتیں۔ کلامی سطح ( ڈسکورس) :پورے متن کا اسلوب، بیانیہ تکنیک، لہجہ۔

اطلاق کا طریقہ اطلاق کا طریقہ سٹائلسٹک تجزیے میں عام طور پر درج ذیل مراحل ہوتے ہیں: Textual Level الفاظ اور جملوں کی سطح پر تجزیہ۔ Phonological Features قافیہ، وزن، وغیرہ۔ Lexical Choices مشکل/آسان الفاظ، عام/ادبی زبان کا انتخاب۔ Syntax جملوں کی ترتیب ، تکرار۔ Semantic Features: استعارہ، علامت، تمثیل ، ابہام ۔ Pragmatic Level مصنف کا ارادہ اور قاری پر اثر۔

ماحولیاتی تناظر ماحولیاتی ادبی تناظر کے مطالعے کا وہ زاویہ ہے جو انسان اور فطرت کے تعلق کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ یہ نظریہ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ ادبی متون (شاعری، فکشن، ڈرامہ) میں فطرت، ماحول اور ماحولیاتی بحرانوں کو کیسے پیش کیا جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد فطرت کو نظرانداز کرنے اور صرف مادّی ترقی پر زور دینے کے خلاف ردِعمل کے طور پر اس نظریے نے جنم لیا۔ بیسویں صدی میں ماحولیاتی مسائل جیسے ماحولیاتی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، جنگلاتی حیات کی تباہی اور موسمی تغیر نے اس رجحان کو فروغ دیا۔ ادب میں اس تنقید نے فطرت کے احترام اور تحفظ کے لیے ایک فکری فریم مہیا کیا۔

ماحولیاتی تناظر کے اہم نظریہ ساز ۱۔ رام چندر گوہا (ہندوستان) رام چندر گوہا ماحولیاتی تاریخ اور تنقید کے نمایاں نام ہیں۔ انہوں نے فطرت اور انسانی تہذیب کے تعلق کو خاص طور پر برصغیر کے تناظر میں واضح کیا۔ ان کا خیال ہے کہ فطرت کی بقا انسان کی بقا سے جڑی ہوئی ہے اور ترقی کے نام پر فطرت کی تباہی دراصل انسانی وجود کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ ۲ ۔ ارنیسٹو کیو (لاطینی امریکہ) انہوں نے زور دیا کہ ماحولیاتی تناظر صرف فطرت کے مطالعے تک محدود نہیں بلکہ سماجی انصاف سے بھی جڑا ہے۔ فطرت کے وسائل کا استحصال دراصل کمزور طبقوں کی محرومی کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ماحولیاتی تنقید میں فطرت اور سماجی انصاف دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

ماحولیاتی تناظر کے اہم نظریہ ساز ۳۔ لارنس بیوئل (امریکہ): انہوں نے ادب میں فطرت کی پیشکش پر زور دیا اور کہا کہ ماحولیاتی تنقید کا مقصد قاری کو یہ احساس دلانا ہے کہ فطرت محض منظر کشی نہیں بلکہ انسان کی زندگی میں فعال اور فیصلہ کن کردار رکھتی ہے۔ ۴۔ چیریل گلوٹ فیلٹی (امریکہ): وہ ماحولیاتی تناظر کو ایک باقاعدہ تنقیدی دبستان بنانے والی اولین شخصیات میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ادب کا مطالعہ محض انسان کے نقطۂ نظر سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ فطرت اور ماحول کو بھی اس کا مرکز بنایا جانا چاہیے۔

ماحولیاتی تناظر کے اہم نکات فطرت کی مرکزیت: فطرت کو صرف پس منظر نہیں بلکہ ادبی متن کا ایک فعال اور بنیادی کردار سمجھا جاتا ہے۔ انسان اور فطرت کا تعلق: انسان کو فطرت پر غالب نہیں بلکہ اس کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا ناگزیر ہے۔ ماحول کی تباہی پر تنقید: ادب میں اس بات کو اجاگر کیا جاتا ہے کہ صنعتی ترقی، جنگلات کی کٹائی، آلودگی اور وسائل کے بے جا استعمال سے فطرت کو کس طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ ادب کا مقصد بیداری: ادب قاری کو ماحولیاتی مسائل کے بارے میں بیدار کرنے اور فطرت کے تحفظ کی ترغیب دینے کا وسیلہ بنتا ہے۔

ماحولیاتی تناظر کے اہم نکات ماحول اور سماج کا رشتہ ماحولیاتی مسائل صرف فطرت تک محدود نہیں بلکہ سماجی ناانصافی اور طبقاتی استحصال سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ جمالیات اور اخلاقیات کا امتزاج ادب میں فطرت کو صرف حسن کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کے اخلاقی اور وجودی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔ بین المتنی مطالعہ ماحولیاتی تناظر ادب، فلسفہ، سائنس اور سیاست کے درمیان ربط پیدا کرتا ہے تاکہ فطرت کو ہمہ جہتی طور پر سمجھا جا سکے۔ تنقید کا نیا زاویہ یہ دبستان اس بات پر زور دیتا ہے کہ ادب کا مطالعہ محض انسان کی نفسیات یا سماجیات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ فطرت کو بھی بنیادی اہمیت ملنی چاہیے۔

اہم مثالیں عالمی ادب سے: ورڈز ورتھ کی شاعری: فطرت کو ماں، معلم اور شفا بخش قوت کے طور پر دکھایا۔ Henry David Thoreau – Walden (1854): انسان اور جنگل کے رشتے پر کلاسیکی متن۔ Amitav Ghosh – The Hungry Tide (2004): ماحولیاتی خطرات اور انسان–قدرت تعلقات۔ اردو ادب سے: میر تقی میر کی غزلوں میں فطرت کی تصویریں (باغ، پھول، پرندے)۔ غالب کے اشعار میں فطرت کی علامتی جہت (چاند، ستارے، بجلی، درخت)۔ قدرت اللہ شہاب کی "شہاب نامہ" میں ماحول اور قدرتی مناظر کی تحریریں۔ شاہد مکلی کی شاعری (تنازور) میں ماحول اور درخت کا استعارہ۔ جدید شاعری میں فہمیدہ ریاض اور افتخار عارف کے اشعار میں بھی ماحولیاتی جہات ملتی ہیں

خاک سار کی طرف سے کچھ مجوزہ عنوانات 1۔ مستنصر حسین تارڑ کے چنیدہ ناولوں کا نوتاریخی مطالعہ اور سماجی اختراعات کے کا انہدام 2۔اکیسویں صدی کی نظم میں گزشتگاں کا بیانیہ : ایک پس ۔ ساختیاتی مطالعہ 3۔ پاکستانی ریپ موسیقی اور ابہام کی سیاست : چنیدہ متون کی رد ۔ تشکیل 4۔ پاکستانی کوسموپولیٹن مراکز کی شاعری اور مقامی ثقافتوں کے رد کا ماحولیاتی تناظراتی مطالعہ 5۔ بیپسی سدھوا کے ناول دا کرو ایٹرز کا ترجمہ از عمر میمن" دا جنگل والا صاحب" : ہیئتی اورمعنوی انحراف کا مطالعہ 6۔ بصری بیانیوں کا سماجی لسانیاتی مطالعہ 7۔ گفتگو میں وقفوں کا معنیاتی نظام : لاکانی تصور ۔ زباں کے تحت نفسیاتی مطالعہ 8۔ سیاسی نفرت آمیز بیانیے بطور جمہوری تسلسل : ڈسکورس اینلسس 9۔ اکیسویں صدی کی طویل نظمیں اور معروض کے عدم تناسب کی تحلیل ۔ نفسی

خاک سار کی طرف سے کچھ مجوزہ عنوانات 19۔ عورت مارچ کا بیانیہ اور سماجی لامرکزیت : ساختیاتی تناظر میں ایک مطالعہ 11۔ اردو ادب میں ہر دو ہم جنس پرستانہ متون اور احتراز کا ثقافتی انجذاب : احتراز بطور سرمایہ دارانہ ٹول 12۔ تنہائی کی معنویت : ذہنی مریضوں کی کلامی تفسیر 13۔ خواجہ سرائیت اور سماجی تکثیریت کی سیاست : لسانی مطالعہ 14۔ بصری بیانیوں میں نسائی کرداروں کی آبجیکٹی فکیشن : ایک پس ۔ تانیثتی مطالعہ 15۔ عوامی بیت الخلائی متون کی مصنفی نامعلومیت : نادیدہ جبر کی تفہیم 16۔ آئی ایم ایف کی امداد بطور سرمایہ دارانہ جمہوری ٹول : ایک تاریخی تناظر 17۔ ہندوستانی اور پاکستانی غزل: ایک مابعد جدید مطالعہ 18۔ مارشل لائی دور کے ادبی متون اور استعارے کی توسیع : ایک پس ساختیاتی مطالعہ 19۔ اردو روایتی تنقید میں لبرل ہیومن ازم بطور مہابیانیہ

خاک سار کی طرف سے کچھ مجوزہ عنوانات . سلیو نیریٹیوز یعنی غلاموں کے بیانیے/ادب 20 2. بیوروکریٹک نیریٹوز یعنی افسر شاہی کے بیانیے/ادب 1 . چِک لٹریچر یعنی نوجوان خواتین یا خواتین پر لکھے گیا ادب 22 . پرزن نیریٹوز یونی زنداں کے بیانیے/ ادب 23 .ٹرانس جینڈرز نیریٹورز یعنی خواجہ سراؤں یا مخنثوں کے بیانیے/ادب 24 . کوپ نیریٹوز یعنی پولیس کے بیانیے/ادب 25 ۔ سوشل میڈیا اور معاصر شاعری ؛ بدلتی ہوئی جمالیات کا جدلیاتی مطالعہ 26 ۔ بچوں کا ادب : پسِ متن ناصحانہ جبر کا مطالعہ 27 ۔ ادب اور ڈیجیٹل ایج : بصری متون اور سماجی عدم تحرک کا سانحہ 28 ۔ فرد بطور پرستار: انفرادی شناخت کی لایعنیت 29 ۔ وی لاگنگ اور بصری منڈی کے موضوعات: ردِ تشکیلی مطالعہ 30 از الیاس بابر اعوان جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
Tags